Friday, December 20, 2013

راز ہوں سو مجھے امکان میں رکھا گیا ہے،، ایک حیرت کو مری جان میں رکھا گیا ہے

راز ہوں سو مجھے امکان میں رکھا گیا ہے،،

ایک حیرت کو مری جان میں رکھا گیا ہے..

پہلے دھاگہ سا نکالا مجھے ریشم سے اور اب،،

چاک در چاک گریبان میں رکھا گیا ہے..

گمشدہ عشق سنبھالے مری جاں کے اندر،،

یہ مرا دل مرے نقصان میں رکھا گیا ہے..

دوپہر ہی میں منائی تھی کڑی ہجر کی شام،،

دن بچا تھا وہ شبستان میں رکھا گیا ہے..

دیکھ کر دشت میں بولی کہ یہاں کیسے جناب؟

شب درندوں کو تو زندان میں رکھا گیا ہے..

آپ کے عکس پہ بھی لکھی گئی ہے نئی نظم،،

آپ کو چوم کے گلدان میں رکھا گیا ہے..

حادثے میرے زمانے کی گواہی دیں گے،،

یہ تماشہ مری پہچان میں رکھا گیا ہے..

عشق آیت ہوں صحیفوں سے ملا مجھ کو وجود،،

مجھ کو تو یار سب ادیان میں رکھا گیا ہے..

No comments:

Post a Comment