Wednesday, December 18, 2013

کون کہتا ہے اُسے دِل سے نکالے ہوئے ہیں

کون کہتا ہے اُسے دِل سے نکالے ہوئے ہیں

اِک یہی روگ تو ہم شوق سے پالے ہوئے

اے خُداوند! میرے یار سلامت رکھنا

میں نے یہ سانپ بڑے ناز سے پالے ہوئے ہیں

اِن چراغوں نے اندھیرے ہی دیئے ہم کو سدا

خود جلے ہیں تو کہِیں گھر میں اُجالے ہوئے ہیں

سالہا سال تُجھے ورد میں رکھا مِیں نے

میرے ہونٹوں پہ تیرے نام کے چھالے ہوئے ہیں

کیسے آُمید کروں مُجھ کو سہارا دینگے

بوجھ اپنا جو میرے کاندھے پہ ڈالے ہوئے ہیں

کہیں اِیمان کہِیں جسم کو بیچا ہے "امِین"

تب کہیں جا کے میسّر دو نوالے ہوئے ہیں __!!!!

No comments:

Post a Comment