Thursday, December 26, 2013

ایک بادشاہ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا تھا۔ ایک رات مستی میں گم تھا اور بولا کہ ہمارے لئے دنیا میں اس وقت سے

ایک بادشاہ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا تھا۔ ایک رات مستی میں گم تھا اور بولا کہ ہمارے لئے دنیا میں اس وقت سے زیادہ اچھا وقت کوئی نہں اسلئے کہ نہ اچھے برے کا خیال ہے نہ کسی غم کی فکر۔ ایک فقیر جاڑے میں سویا ہوا تھا اور سردی سے ٹھٹھر رہا تھا۔ اس نے بادشاہ کی بات سنی تو بولا کہ اے بادشاہ مانا کہ تجھے اپنا کوئی غم نہیں مگر کیا تجھے ہماری بھی کوئی فکر یا کوئی غم نہیں ہے؟

یہ بات بادشاہ کے دل کو لگی۔ اس نے ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی نکالی اور فقیر کو کہا کہ اپنا دامن پھیلاۓ۔ فقیر نے کہا کوئی چادر کوئی کپڑا نہیں ہے دامن کہاں سے لاؤں؟ بادشاہ کو اسکی کمزور حالت پر اور رحم آیا اور اس کو ایک کپڑوں کا جوڑا اور چادر بھی دی۔

فقیر نے تھوڑے ہی عرصے میں وہ ساری رقم ضائع کر دی اور دوبارہ بادشاہ کے پاس آ گیا ۔ اس وقت بادشاہ اپنے معاملات میں الجھا تھا اور جب اسے اس فقیر کے بارے میں بتایا گیا تو اس نے کوئی پرواہ نہ کی۔ ناراض ہوا اور غصہ میں منہ پھیر لیا اور کہا کہ اس بے حیا فضول خرچ کو یہاں سے نکال دو جس نے اتنی قلیل مدت میں اسقدر دولت ضائع کر دی۔ بیت المال کا خزانہ مسکینوں کا حق ہے نہ کہ شیطان کے بھائیوں کی خوراک۔

ایک خیر خواہ وزیر نے کہا، جناب میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگوں کو گزارے لائق رقم ہی دینی چاہئیے اس سے زیادہ نہیں تاکہ یہ فضول خرچی نہ کریں۔ لیکن جیسا آپ کا حکم ہے کہ اسکو منع کیا جاۓ اور جھڑک کر نکال دیا جاۓ یہ نامناسب ہے کہ کسی کو ایک مرتبہ مہربانی کر کے امیدوار بنا دینا اور پھر ناامید کر کے دل توڑ دینا اور خالی ہاتھ لوٹایا جاۓ۔

بادشاہ نے وزیر کے مشورے کو سراہا اور فقیر کو غلطی کے لئے سرزنش کرتے ہوۓ گزارے لائق رقم دے کے جانے کا کہہ دیا۔

اس حکایت سے یہ بات واضح ہوئی کہ اپنے اوپر لالچی لوگوں کے لئے دروازہ نہ کھولو مگر جب کھل گیا تو سختی سے بند کرنا نامناسب ہے، حکمت و دانائی سے درمیانی راہ نکالنی چاہئیے۔ کیونکہ آدمی، پرند چرند، چیونٹیاں سب وہیں جمع ہوتی ہیں جہاں میٹھے پانی کا چشمہ ہو گا ، کھارے پانی کے قریب کوئی نظر نہیں آتا، لوگ اسی در کو کھٹکھٹاتے ہیں جہاں دروازہ کھلنے کی امید ہو اور اگر کوئی آپ کا در کھٹکھٹاتا ہے تو یہ اللہ پاک کا احسان ہے کہ اُس نے اِس قابل بنایا۔

No comments:

Post a Comment